25 نومبر 2025 - 19:19
سیدہ زہراء(س) کی وہ ثقافتی حکمت عملی، جس سے مغرب گریزاں ہے

حجاب سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کے کلام میں صرف ظاہری پہناوا نہیں ہے بلکہ ایک بیانیہ ہے کہ عورت کے وقار، معاشرے کی سلامتی، اور عقلمندی کی حد بندی کا، وہ بیانیہ جسے مغربی دھارے اور ننگے پن پر مبنی ثقافت کے متوالے نہیں سن سکتے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سیدہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا)  کی نظر میں حجاب صرف ایک فقہی حکم نہیں ہے بلکہ یہ ایک فکری، تربیتی اور سماجی ڈھانچے پر استوار ہے جو آپۜ کے مختصر لیکن گہرے کلام میں میں نظر آتا ہے۔ اگرچہ حجاب کے بارے میں آپۜ سے منقولہ براہ راست احادیث و روایات تعداد کے لحاظ سے کچھ زیادہ نہیں ہیں، لیکن یہ چند جملے اسلام میں حجاب کی ثقافت کی سب سے اہم بنیادوں کو تشکیل دیتے ہیں۔

ان احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی نظر میں حجاب کا آغاز انسان کی عزت سے ہوتا ہے، حیا کے راستے سے ارتقاء پاتا ہے اور اور آخر کار انفرادی تحفظ اور سماجی صحت پر پہنچ جاتا ہے۔

سیدہ زہراء(س) کی وہ ثقافتی حکمت عملی، جس سے مغرب گریزاں ہے

حجاب کے بارے میں پہلا تصور "حیا" ہے۔

حجاب کے بارے میں حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے کلام میں پہلا اور انتہائی بنیادی تصور "حیا" سے عبارت ہے۔ حیا اسلام میں محض ایک اخلاقی خصلت نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی پہچان اور تشخص تشکیل دینے والا عنصر ہے۔ یہ ایک ایسی فضیلت (اور خوبی) ہے جو اگر انسان کے دل میں جگہ بنا لے تو بہت سے رویوں اور سماجی بگاڑ پر منتج ہونے والے بہت سے مسائل خود بخود ختم ہو جاتے ہیں۔

سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی ایک مشہور حدیث:

"خَیرٌ لِلنِّساءِ أن لَا یَروْنَ الرِّجالَ وَلَا یَرَاهُنَّ الرِّجَالُ؛

بہت بہتر ہے خواتین کے لئے کہ وہ [ممکنہ حد تک] نامحرم مردوں کو نہ دیکھیں اور نامحرم مرد بھی انہیں نہ دیکھیں۔"

یہ بیان، جو نفسیاتی لحاظ سے بھی بہت سے نکات سے بھرپور ہے، بتاتا ہے کہ عورت کے لئے بہترین حالت یہ ہے کہ وہ غیر ضروری نظروں کے سامنے نہ آئے۔ اس کلام کا مطلب عورت کی گوشہ نشینی یا اسے معاشرے سے دور کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ تعلقات کی حدود کو کنٹرول کرنے اور مرد و عورت کے درمیان صحت مند تعلقات کو متعین کرنے پر زور دیتا ہے۔ سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) اس روایت میں حیا کو ایک انفرادی خوبی کے درجے سے بڑھا کر سماجی تعلقات کا فریم ورک بنا دیتی ہیں۔

حجاب کا مقصد عورت کی عزت و وقار ہے

اگلے مرحلے میں، سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) حجاب کو پابندی کے طور پر نہیں بلکہ عورت کی عزت کا محافظ قرار دیتی ہیں۔ ایک دوسری روایت میں وہ فرماتی ہیں: "المرأَةُ رَیحانَةٌ وَ لَیست بِقَهْرمانَةٍ؛ عورت ایک نازک پھول ہے، نہ کہ کوئی سخت کام کرنے والا محنت کش۔"

یہ بظاہر سادہ سی روایت ایک گہرے پیغام کی حامل ہے: فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہ و آلہ) کی نظر میں عورت ایک نازک اور لطیف، باعزت اور اخلاقی و طرز سلوک کے حوالے سے  تحفظ کی محتاج ہستی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایک قیمتی پھول کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کی خوبصورتی اور تازگی خطرے میں نہ پڑے۔

اس روایت کا پیغام پچھلی حدیث کے ساتھ مل کر مزید واضح ہو جاتا ہے، یعنی عورت کو اپنی عزت کی حفاظت کے لئے اپنے 'تعلقات کی حدود' کا تحفظ کرنا چاہئے، اور حجاب اس حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔ اس نقطہ نظر میں، حجاب تحقیر اور تذلیل کی پیداوار نہیں بلکہ قیمتی بیش قیمت اور قابل قدر ہونے کا نتیجہ ہے۔ موتی جتنا قیمتی ہوگا، اس کی حفاظت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔

حجاب، انفرادی سکون اور معاشرے کی ذہنی سلامتی کا ذریعہ

سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کے کلام میں حجاب کا فائدہ صرف فرد کی عزت و وقار تک محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ معاشرے کے امن و سلامتی کے درجے تک بھی وسعت پاتا ہے۔ جب سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) خطبہ فدکیہ میں معاشرے کے اخلاقی ڈھانچے کو بیان کرتی ہیں، تو وہ واجبات کے ایک ایسے مجموعے کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو "تَنْظیمًا لِلقُلوب" (دلوں کو منظم کرنے) اور "تَشْییدًا لِلمِلَّة" (ملت کو مضبوط و مستحکم بنانے) کے لئے بنائے گئے ہیں۔

یہ نقطہ نظر حجاب کو اسلام کے دیگر معاشرتی احکام کے پہلو میں رکھ دیتا ہے؛ جس طرح کہ نماز، روزہ اور سماجی انصاف معاشرے کے اندرونی اور بیرونی نظم و انتظآم کو تشکیل دیتے ہیں، اسی طرح حجاب معاشرے کے تعلقات کے نظام کو بھی منظم کرتا ہے اور بے جا جذبات، بیمار قسم کی مسابقت، ناپاک نظروں اور ذہنی تناؤ کا سد باب کرتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں: حجاب سماجی اضطراب اور بے چینی کو کم کرتا ہے۔ اس طرح معاشرے کا ارتکاز بڑھ جاتا ہے اور بالآخر عوام کی ذہنی اور نفسیاتی صحت بہتر ہوتی ہے۔ جس معاشرے میں جنسی تعلقات اور آلودہ نظروں پر قابو میں لایا جاتا ہے، وہاں کے، خاندانی اور سماجی اور پیشہ ورانہ تعلقات زیادہ صحت مند طریقے سے چلتے ہیں۔ یہ نکتہ سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کے کلام میں بالواسطہ طور پر تاکید کے ساتھ بیان ہؤا ہے اور یہ حجاب کو معاشرے کی ذہنی سلامتی سے جوڑتا ہے۔

فاطمی حجاب کی روح عقلمندانہ اور دانشمندانہ انتخاب

اگرچہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ حجاب سے متعلق احکام زبردستی عائد کردہ ذمہ داریوں کی ایک قسم ہے، لیکن سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کے کلام میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نیز امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی شادی کی اسی مشہور روایت سے واضح ہوتا ہے کہ حجاب کا بنیادی اصول ایک علمی، معرفتی اور عقلی انتخاب ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) سے پوچھا: "عورت کے لئے سب سے بہتر چیز کیا ہے؟" اور آپۜ نے جواب دیا: "بہترین حالت یہ ہے کہ مرد عورتوں کو نہ دیکھیں اور عورتیں بھی مردوں کو نہ دیکھیں۔"

یہ جواب انسان کی عزت اور سلامتی کی گہری سمجھ بوجھ کا ثمرہ ہے۔ سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) اس جملے میں کوئی فقہی حکم بیان کرنے کے بجائے ایک بڑا اصولی معیار پیش کرتی ہیں۔ یعنی بہترین حالت بے مقصد نظروں اور بے جا تعلقات سے دوری ہے۔ ایسا نقطہ نظر ظاہر کرتا ہے کہ حجاب کی بنیاد درحقیقت عورت کے سکون اور شخصیت کے تحفظ کے لئے شعوری انتخاب۔

دوسرے لفظوں میں: حجاب اس وقت مؤثر ہوتا ہے جب اس کی جڑ علم و معرفت ہو، نہ کہ جبر و زبردستی۔ سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) اس بیان کے ذریعے حجاب کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں اور اسے "عزت کی بنیاد پر آزادانہ انتخاب" کی چوٹی پر، متعارف کرواتی ہیں۔

فاطمی حجاب؛ تشخص، خاندان اور معاشرے کے درمیان ربط

حجاب کے بارے میں سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کا نقطہ نظر ایک جہتی (One-dimensional) نہیں ہے۔ اس نظر میں تین تہہیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں:

1۔ "فرد کا تشخص" یعنی عورت کو سب سے پہلے اپنی قدر جاننا چاہئے، [اپنے وجود اور قدر و قیمت کو جان لے]۔ اس شناخت [یا خودشناسی] کا آغاز حیا اور عزت کے تصور سے ہوتا ہے۔

2۔ "بین شخصی تعلق (Interpersonal relationship)" (یعنی معاشرے کے افراد کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق)، دوسری تہہ ہے کہ اس شناخت کی بنیاد پر سماجی تعلقات کو منظم ہونا چاہئے۔ حجاب اس تنظیم اور ترتیب کا ذریعہ ہے۔

3۔ اور آخرکار میں "معاشرے کی مضبوطی" حجاب کے بارے میں سیدہ کے نقطہ نظر کی تیسری تہہ ہے، جس کا نتیجہ سماجی صحت، خاندانوں کی استحکام اور معاشرے میں فساد اور کشیدگی میں کمی ہے۔

اس طرح، حجاب ایک بڑے سلسلے کی کڑی ہے جو حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) نے ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر کے لئے تجویز کی ہے۔ یہ نقطہ نظر حجاب کو نہ صرف تنگ نظری سے دور کرتا ہے، بلکہ اسے سماجی نظم قائم کرنے کے لئے ایک عقلی قانون بنا دیتا ہے۔

حجاب کے سلسلے میں سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کا فکری منظومہ

سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی احادیث کو اکٹھا کرنے سے ایک واضح نظام سامنے آتا ہے جو مندرجہ ذیل ہے:

1۔ حیا، حجاب کا سرچشمہ ہے جو عورت کی شخصیت کو اندر سے تعمیر کرتی ہے۔

2۔ حجاب عورت کی عزت اور تشخص کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔

3۔ حجاب سماجی بے چینی کو کم کرنے اور ذہنی تحفظ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

4۔ حجاب کی بنیاد آگاہی، عزت نفس اور عقل کی رو سے انتخاب، پر استوار ہے، نہ کہ جبر پر۔

5۔ فاطمی نظریئے میں حجاب، خاندانی ڈھانچے اور معاشرے کے اخلاقی نظام کی ایک اہم کڑی ہے۔

سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کا حجاب کا نمونہ ایک جامع، انسانی اور اخلاقیات پر مرکوز نمونہ ہے جو انسان کے دل سے شروع ہوتا ہے اور معاشرے کی سلامتی تک پھیلا ہؤا ہے۔ یہ نقطہ نظر حجاب کو ایک جبری پردہ نہیں بلکہ عورت کی عزت، سکون اور شخصیت کی ڈھال قرار دیتا ہے۔ وہی ڈھال جو آج بھی بہت سے رویوں اور سماجی مسائل کے خلاف اوزار مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: مہدی احمدی

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha